قرآن وحدیث اور اسلام میں پکی قبر بنانا حلال ہے یا حرا م جاننے کیلئے اس آرٹیکل کو پڑھیں

فہد نیوز ! سب سے پہلے بت پرستی اور قبر پرستی کی بیماری قوم نوح میں آئی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا * وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا * وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا﴾ (71-نوح: 21، 22، 23) ” (کفار سے مایوس ہو کر) حضرت نوح علیہ السلام یوں دعا کرنے لگے۔ اے پروردگار! (یہ کافر لوگ) میری بات نہیں مانتے۔ یہ ان (بتوں) کی پیروی کرنے پر اصرار کرتے ہیں جو ان کے مال و دولت اور اولاد میں افزائش کرنے سے عاجز ہیں۔

البتہ ان کی نحوست سے ان (کفار) کا نقصان ہوتا ہے۔ ان لوگوں نے (میرے ساتھ) بڑے بڑے دعوے کئے ہیں۔ یہ آپس میں ایک دوسرے سے کہتے ہیں تم اپنے معبودوں (کی پوجا) سے ہرگز باز نہ آنا خاص کر سواع، یعوق، یغوث اور نسر کی عبادت پر ڈٹے رہنا‘‘۔ یہ حضرت آدم الله عليه السلام کی اولاد میں سے نیک لوگ تھے۔ ان کی زندگی میں یہ لوگ ان کے پیروکار تھے۔ جب یہ فوت ہو گئے تو ان کے پیروکاروں نے اکٹھے ہو کر آپس میں مشورہ کیا کہ ہم ان کی تصویریں اور مجسمے بنائیں۔ کیونکہ ایسا کرنے سے عبادت میں زیادہ شوق پیدا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ان بزرگوں کی تصویریں اور مجسمے بنائے۔ جب یہ لوگ اس عالم آب و گل سے رختِ سفر باندھ کر ملك عدم میں چلے گئے اور ان کی اولادیں بڑی ہوئیں تو ان سے کہا گیا کہ وہ ان کی پوجا کیا کرتے تھے اور ان سے بارش طلب کرتے تھے۔ اس کی بات سن كر ان کے پرستار بن گئے آہستہ آہستہ تمام عرب ان کا پجاری بن گیا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت سے مذکور ہے کہ یہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم میں سے صالح اور نیک انسان تھے۔ جب یہ فوت ہو گئے تو ان کے پیروکاران کی قبروں پر مجاور بن کر بیٹھ گئے۔

پھر ان کی تصویریں اور مجسمے بنائے، پھر کچھ زمانہ گزرنے کے بعد ان کی عبادت شروع کر دی گئی۔ (صحیح بخاری: کتاب التفسیر) ایک مرتبہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ملک حبشہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک گرجا گھر دیکھا جو تصویروں اور بتوں سے بھرا پڑا تھا۔ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے سامنے اس گرجے کا ذکر کیا یہ سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہ وہ لوگ ہیں جب ان میں سےکوئی نیک اور صالح انسان فوت ہو جاتا تو وہ اس کی قبر كو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے۔ یہ لوگ اللہ تعالی کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں“۔ (صحيح مسلم ج : 1 ص :20) صحیح مسلم میں سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ﷺ نے اپنی رحلت سے چند روز پیشتر فرمایا: الا وان من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور انبيائهم مساجد فاني انهاكم عن ذالك “. (صحيحين مشكوة ج ”میری بات غور سے سنو! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد ہی تصور کرتے تھے۔ خبردار! تم ایسی غلطی مت کرنا۔ میں تم کو ایسا کرنے سے سختی سے منع کرتا ہوں“۔ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب اللہ کے حکم سے ملک الموت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اپنی چادر اپنے چہرہ انور سے دور ہٹائی۔ پھر آپ پر غشی طاری ہو گئی۔

پھر جب ہوش آیا تو فرمایا: لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور انبيائهم مساجد۔ (مشکوة ص :69/ صحیح بخاری، ج:2 ص : 639 نیل الاوطار، ج:4 ص: 97) ”یہود و نصاری پر لعنت خداوندی ہو انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو جدہ گاہ بنا لیا“۔ صحیحین میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت کے موقعہ پر فرمایا : لعن الله اليهود والنصاري اتخذوا قبور انبيائهم مساجد ولو لا ذالك لا برز قبره غير انه خشي ان يكون مسجدا۔ (صحیحین مشکوہ ج :1 ص1 : 19) ”یہود اور نصاری پر اللہ کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اگر یہ خدشہ نہ ہوتا کہ لوگ حضورا کرم صلی اللہ علیہ سلم کی قبر مبارک کو سجدہ گاہ بنا لیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک باہر بنائی جاتی۔ مگر خدشہ تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو آپ کی قبر مبارک سجدہ گاہ بن جائے گی“۔

اپنی رائے کا اظہار کریں